مانا کہ زلزلہ تھا یہاں کم بہت ہی کم
بستی میں بچ گئے تھے مکاں کم بہت ہی کم
میرے لہو کا ذائقہ چکھتا رہا تھا درد
تنہائیاں تھیں رات جہاں کم بہت ہی کم
کانٹوں کو سینچتی رہی پرچھائیوں کی فصل
جب دھوپ کا تھا نام و نشاں کم بہت ہی کم
آنگن میں دھوپ دھوپ کو اوڑھے اداسیاں
گھر میں تھے زندگی کے نشاں کم بہت ہی کم
مفلوج رات کرب کے بستر پہ لیٹ کر
کرتی ہے اب تو آہ و فغاں کم بہت ہی کم
کیوں دوستوں کی بھیڑ سے گھبرا نہ جائے دل
دشمن تو رہ گئے ہیں یہاں کم بہت ہی کم
ہم جب سے پتھروں کی تجارت میں لگ گئے
ہے دوستیٔ شیشہ گراں کم بہت ہی کم
اتنی اذیتوں سے گزرنے کے بعد رندؔ
خود پر ہے زندگی کا گماں کم بہت ہی کم
غزل
مانا کہ زلزلہ تھا یہاں کم بہت ہی کم
پی.پی سری واستو رند