EN हिंदी
معلوم کچھ ہوا ہی نہ دل کا اثر کہیں | شیح شیری
malum kuchh hua hi na dil ka asar kahin

غزل

معلوم کچھ ہوا ہی نہ دل کا اثر کہیں

قائم چاندپوری

;

معلوم کچھ ہوا ہی نہ دل کا اثر کہیں
ایسا گیا کہ پھیر نہ پائی خبر کہیں

عالم میں ہیں اسیر محبت کے ہر کہیں
لیکن ستم کسو پہ نہیں اس قدر کہیں

کھولی تھی چشم دید کو تیری پہ جوں حباب
اپنے تئیں میں آپ نہ آیا نظر کہیں

جوں غنچہ فکر جمع نہ کر ٹک تو گل کو دیکھ
قسمت کی کھو سکے ہے پریشانی زر کہیں

رہنے دو میری نعش کو ہو جائے تا غبار
لے جائے گی اڑا کے نسیم سحر کہیں

مصرف ہے سب یہ بالش صیاد کا ترے
بسمل نہ بھریو خون سے تو بال و پر کہیں

روتی ہے کیا گلوں کو تو شبنم ادھر تو دیکھ
ٹکڑے ہے اس طرح سے کسی کا جگر کہیں

کرتا تھا کل گلی میں وہ اپنی خرام ناز
اس میں جو آ کے پڑتی ہے مجھ پر نظر کہیں

کہنے لگا یہ دیکھ کے احوال کو مرے
بد نام تو کسی کے تئیں یاں نہ کر کہیں

کیا ہتیا تجھے یہیں دینی ہے اے عزیز
اتنا پڑا ہے ملک خدا جا کے مر کہیں

قائمؔ یہ فیض صحبت سوداؔ ہے ورنہ میں
طرحی غزل سے میرؔ کی آتا تھا بر کہیں