EN हिंदी
ماہ رو نکلے ہے نت اجلی طرح | شیح شیری
mah-ru nikle hai nit ujli tarah

غزل

ماہ رو نکلے ہے نت اجلی طرح

عبید اللہ خاں مبتلا

;

ماہ رو نکلے ہے نت اجلی طرح
اس سبب روشن ہے دل پتلی طرح

سن مرا رونا ہوا ٹک مہرباں
یار نے برسات میں بدلی طرح

غمزہ کی شمشیر چمکاتا ہے وہ
کیوں نہ ہو دل مضطرب بجلی طرح

مچھی دیتا نئیں مجھے وہ بحر سوں
چھوڑ دی اس نے مگر اگلی طرح

کیوں مرے آگے اکڑ چلتا ہے آج
مجھ کو بھولی نئیں تری پچھلی طرح

سرنگوں ہے سرو قد کی فکر میں
بید نے مجنوں کی سب لیلی طرح

عشق نے آ کر پچھاڑا دل کتیں
گرگ نیں آہو سیں کی جنگلی طرح

مجھ دوانے کی نظر میں اے پری
تاش اور کمخاب ہے کملی طرح

گالی دے کر مسکراتا ہے وہ شوخ
مبتلاؔ اب یوں نئی نکلی طرح