ماہ نو پردۂ سحاب میں ہے
یا کہ ابرو کوئی نقاب میں ہے
رنگت اس رخ کی گل نے پائی ہے
اور پسینے کی بو گلاب میں ہے
آج ساقی شکار کھیلے گا
بط مے کانسۂ شراب میں ہے
طول روز فراق کہتا ہے
حشر کا روز کس حساب میں ہے
شربت قند کی سی شیرینی
دہن یار کے لعاب میں ہے
شان سے کچھ بگڑ گئی شاید
زلف شب رنگ پیچ و تاب میں ہے
ہو سخیؔ کو نہ فکر یا اللہ
عرض اتنی تیری جناب میں ہے
غزل
ماہ نو پردۂ سحاب میں ہے
سخی لکھنوی