لوگ پتھر کے تھے فریاد کہاں تک کرتے
دل کے ویرانے ہم آباد کہاں تک کرتے
آخرش کر لیا مٹی کے حرم میں قیام
خود کو ہم خانماں برباد کہاں تک کرتے
ایک زندان محبت میں ہوئے ہم بھی اسیر
خود کو ہر قید سے آزاد کہاں تک کرتے
خود پہ موقوف کیا اس کا فقط درس وصال
ہر نئے درس کو ہم یاد کہاں تک کرتے
کر لیا ایک بیاباں کو مسخر ہم نے
روز تصویر کو ایجاد کہاں تک کرتے
لوگ خاموش تھے اثبات و نفی کے مابین
ایسے ماحول میں ارشاد کہاں تک کرتے
ہر وجود اپنے لیے ایک سوالی تھا طرازؔ
خود کو ہم مائل ابعاد کہاں تک کرتے
غزل
لوگ پتھر کے تھے فریاد کہاں تک کرتے
راشد طراز