لکھ رہا ہوں حرف حق حرف وفا کس کے لئے
مانگتا ہوں زندہ رہنے کی دعا کس کے لئے
پھول ہیں سب ایک گلشن کے تو پھر تخصیص کیوں
صحن گلشن میں یہ زہریلی ہوا کس کے لئے
میں تو ناکام محبت ہوں چلو رسوا ہوا
تو بتا ہے تیرا پیمان وفا کس کے لئے
میں تو اک خواہش کی بھی تکمیل پر قادر نہیں
یہ شکوہ خسروانہ یہ انا کس کے لئے
مجھ کو خوش فہمی نہیں ہے اے ہوا پھر بھی بتا
مضطرب ہے وہ تغافل آشنا کس کے لئے
کھو چکا ہے اس کو جب تو خود ہی اے سلطان رشکؔ
اب دھڑکتا ہے دل بے مدعا کس کے لئے

غزل
لکھ رہا ہوں حرف حق حرف وفا کس کے لئے
سلطان رشک