لذت لمس مر نہ جائے کہیں
پھر یہ دریا اتر نہ جائے کہیں
تجھ کو دیکھا تو دیکھتا ہی رہا
اب یہ ضدی نظر نہ جائے کہیں
جنگ جاری ہے رشتے ناطوں میں
سب اثاثہ بکھر نہ جائے کہیں
خون میں تر بہ تر قبیلے ہیں
کھیل حد سے گزر نہ جائے کہیں
موت پر اعتبار ہے اپنا
وہ بھی اب کہ مکر نہ جائے کہیں
ہاتھ سینے پہ مرے رہنے دے
دل کی دھڑکن ٹھہر نہ جائے کہیں
روز جانے کی باتیں کرتا ہے
یار فاروقؔ پر نہ جائے کہیں

غزل
لذت لمس مر نہ جائے کہیں
فاروق رحمان