لجا لجا کے ستاروں سے مانگ بھرتی ہے
عروس شام یہ کس کے لیے سنورتی ہے
وہ اپنی شوخی رفتار ناز میں گم ہے
اسے خبر ہی کہاں کس پہ کیا گزرتی ہے
جواب اس کے سوالوں کا دے کوئی کب تک
یہ زندگی تو مسلسل سوال کرتی ہے
اس آرزو نے ہمیں بھی کیا اسیر اپنا
وہ آرزو جو سدا دل میں گھٹ کے مرتی ہے
اب آ گئے ہو تو ٹھہرو خرابۂ دل میں
یہ وہ جگہ ہے جہاں زندگی سنورتی ہے
یہ چھٹنے والے ہیں بادل جو کالے کالے ہیں
اسی فضا میں وہ روشن دھنک نکھرتی ہے
کوئی پڑاؤ نہیں اس سفر میں اے مخمورؔ
جو چل پڑے تو ہوا پھر کہاں ٹھہرتی ہے
غزل
لجا لجا کے ستاروں سے مانگ بھرتی ہے
مخمور سعیدی