EN हिंदी
لگاؤں ہاتھ تجھے یہ خیال خام ہے کیا | شیح شیری
lagaun hath tujhe ye KHayal-e-KHam hai kya

غزل

لگاؤں ہاتھ تجھے یہ خیال خام ہے کیا

زیب غوری

;

لگاؤں ہاتھ تجھے یہ خیال خام ہے کیا
ترا بدن کوئی شمشیر بے نیام ہے کیا

مری جگہ کوئی آئینہ رکھ لیا ہوتا
نہ جانے تیرے تماشے میں میرا کام ہے کیا

اسیر خاک مجھے کر کے تو نہال سہی
نگاہ ڈال کے تو دیکھ زیر دام ہے کیا

یہ ڈوبتی ہوئی کیا شے ہے تیری آنکھوں میں
ترے لبوں پہ جو روشن ہے اس کا نام ہے کیا