لبوں تک آیا زباں سے مگر کہا نہ گیا
فسانہ درد کا المختصر کہا نہ گیا
حریم ناز میں کیا بات تھی جو راز رہی
وہ حرف کیا تھا جو بار دگر کہا نہ گیا
یہ حادثہ بھی عجب ہے کہ تیرے غم کے سوا
کسی بھی غم کو غم معتبر کہا نہ گیا
نفس نفس میں تھا احساس خانہ ویرانی
خرابۂ غم ہستی کو گھر کہا نہ گیا
تلاش کرتا ہوں ایمائے التفات ابھی
وہ کیا نظر تھی کہ جس کو نظر کہا نہ گیا
جنوں نے فکر و نظر کو وہ رفعتیں بخشیں
خرد کو ہم سے کبھی دیدہ ور کہا نہ گیا
نہ کوئی شور نہ غوغا نہ ہاؤ ہو نہ خروش
خزاں کو موسم دیرنہ گر کہا نہ گیا
دل اضطراب گزارش کا محشرستاں تھا
کسی کے سامنے کچھ بھی مگر کہا نہ گیا

غزل
لبوں تک آیا زباں سے مگر کہا نہ گیا
یزدانی جالندھری