EN हिंदी
لب و رخسار و جبیں سے ملئے | شیح شیری
lab-o-ruKHsar o jabin se miliye

غزل

لب و رخسار و جبیں سے ملئے

ابن صفی

;

لب و رخسار و جبیں سے ملئے
جی نہیں بھرتا کہیں سے ملئے

یوں نہ اس دل کے مکیں سے ملئے
آسماں بن کے زمیں سے ملئے

گھٹ کے رہ جاتی ہے رسوائی تک
کیا کسی پردہ نشیں سے ملئے

کیوں حرم میں یہ خیال آتا ہے
اب کسی دشمن دیں سے ملئے

جی نہ بہلے رم آہو سے تو پھر
طائر سدرہ نشیں سے ملئے

بجھ گیا دل تو خرابی ہوئی ہے
پھر کسی شعلہ جبیں سے ملئے

وہ کوئی حاکم دوراں تو نہیں
مت ڈریں ان کی نہیں سے ملئے