EN हिंदी
لب خاموش سے افشا ہوگا | شیح شیری
lab-e-KHamosh se ifsha hoga

غزل

لب خاموش سے افشا ہوگا

احمد ندیم قاسمی

;

لب خاموش سے افشا ہوگا
راز ہر رنگ میں رسوا ہوگا

دل کے صحرا میں چلی سرد ہوا
ابر گلزار پہ برسا ہوگا

تم نہیں تھے تو سر بام خیال
یاد کا کوئی ستارہ ہوگا

کس توقع پہ کسی کو دیکھیں
کوئی تم سے بھی حسیں کیا ہوگا

زینت حلقۂ آغوش بنو
دور بیٹھو گے تو چرچا ہوگا

جس بھی فن کار کا شہکار ہو تم
اس نے صدیوں تمہیں سوچا ہوگا

آج کی رات بھی تنہا ہی کٹی
آج کے دن بھی اندھیرا ہوگا

کس قدر کرب سے چٹکی ہے کلی
شاخ سے گل کوئی ٹوٹا ہوگا

عمر بھر روئے فقط اس دھن میں
رات بھیگی تو اجالا ہوگا

ساری دنیا ہمیں پہچانتی ہے
کوئی ہم سا بھی نہ تنہا ہوگا