لب خاموش میں پنہاں ہے کوئی راز نہیں
زندگی ساز ہے جس میں کوئی آواز نہیں
کیوں نہ آغوش تخیل میں میں اڑتا ہی رہوں
در حقیقت ہے مجھے خواہش پرواز نہیں
میرے کردار میں ہے نیکی بدی پر بھاری
کیوں وہ کر پائے بدی کو نظر انداز نہیں
یہ تعلق جو کیا قطع ہوا قصہ تمام
یہ نئی داستاں کا نقطۂ آغاز نہیں
روبرو آئنے کے جاؤں تو دکھتا ہے مجھے
اجنبی شخص جو ہم شکل و ہم آواز نہیں
ہوں تو ہرگز نہیں پابند قواعد ناقدؔ
اپنی آوارگی پہ مجھ کو مگر ناز نہیں
غزل
لب خاموش میں پنہاں ہے کوئی راز نہیں
ؔآدتیہ پنت ناقد