لب جاں بخش پر جو نالہ ہے
اب مسیحا بھی مرنے والا ہے
خون تھوکا مدام صورت زخم
دل ناصور اب تک آلا ہے
رو رہا ہوں مثل ابر بہار
دونگڑا مینہ کا ہے نہ جھالا ہے
وہ بلانوش رنج و محنت ہوں
غم کونین اک نوالا ہے
ہر قدم پر ہیں سیکڑوں پامال
سرکشوں کا چلن نرالا ہے
ہر مژہ پر رواں ہیں کودک اشک
نے سواروں کا یار سالا ہے
اشک خوں روح پر ہیں مثل شفق
رنگ کس شوخ نے اچھالا ہے
فرد اعمال نیک کاراں شادؔ
قصر فردوس کا قبالہ ہے
غزل
لب جاں بخش پر جو نالہ ہے
شاد لکھنوی