لب جاں بخش کے میٹھے کا تیرے جو مزہ پایا
تو چشمہ زندگی کا اپنی لبریز بقا پایا
نہ ہوئے کیوں بصد جاں دل مرا مفتوں ترا جاناں
کہ ہر جلوے میں تیرے یک کرشمہ میں جدا پایا
دوبالا کیوں نہ ہو نشہ دل حیراں کی حیرت کا
جو تجھ کو سب میں اور تیرے میں سب کو برملا پایا
تری اک گردش مژگاں سے یوں بے تاب و طاقت ہوں
نہ کہہ سکتا ہوں کچھ گر کوئی پوچھے تو نے کیا پایا
نہ دنیا اس میں رہ پاوے نہ عقبیٰ اس کو پھیلاوے
دل آگاہؔ کے کوثر میں جن نے انزوا پایا

غزل
لب جاں بخش کے میٹھے کا تیرے جو مزہ پایا
باقر آگاہ ویلوری