لالچ سے اور جور و جفا سے نہیں بنی
اپنی زمین والے خدا سے نہیں بنی
خوشیوں کے ساتھ رہ نہ سکے ایک پل کبھی
یعنی چراغیوں کی ہوا سے نہیں بنی
سننے کی حد تلک اسے اک بار کیا سنا
کانوں کی پھر کسی بھی صدا سے نہیں بنی
اپنی انا کی ریت پہ اپنے اصول پہ
پالا وہ درد جس کی دوا سے نہیں بنی
ہم نے اسی زمین پہ فانیؔ کھلائے پھول
مدت سے جس زمیں کی گھٹا سے نہیں بنی
غزل
لالچ سے اور جور و جفا سے نہیں بنی
فانی جودھپوری