EN हिंदी
لاکھ دیکھوں تجھے پھرتی نہیں نیت میری | شیح شیری
lakh dekhun tujhe phirti nahin niyyat meri

غزل

لاکھ دیکھوں تجھے پھرتی نہیں نیت میری

مردان صفی

;

لاکھ دیکھوں تجھے پھرتی نہیں نیت میری
دل ہے قابو میں مرا اب نہ طبیعت میری

آ کے پہلو میں مرے بیٹھ میں ہو جاؤں نثار
ہے تمنا تو یہی ہے یہی حسرت میری

دم آخر تو مرے پاس بھلا آ بے درد
تیری فرقت میں کوئی دم میں ہے رخصت میری

قبر پر میری اگر فاتحہ پڑھنے کے لئے
وہ جو آ جائیں تو تھرا اٹھے تربت میری

تم کو دیکھا کروں ہر وقت سراپا ہوں فنا
کرتی رہ رہ کے تقاضا ہے یہ حالت میری

زندہ درگور ہوں لیکن مجھے زندہ نہ سمجھ
ایک مدت جو یہی رہ گئی حالت میری

کشتۂ ناز ہوں جن کا ہے انہیں کا کونین
ثروت جم سے اٹھے گی وہ ہے میت میری

بعد مردن بھی میں بیمار محبت ہی رہوں
تا قیامت نہ ہو یا رب کبھی صحت میری

ہیچ دنیا ہے زر و مال ہے سب ہیچ مگر
اک محبت تری مرداںؔ ہے یہ دولت میری