کیوں کر شکار حسن نہ کھیلیں یہاں کے لوگ
پریوں کو پھانس لیتے ہیں ہندوستاں کے لوگ
آپس میں ایک دوسرے سے آشنا نہیں
زیر زمیں بھرے ہیں الٰہی کہاں کے لوگ
باغ جہاں سے جاتے نہیں جانب بہشت
ناحق طمانچے کھاتے ہیں باد خزاں کے لوگ
شہر وفا کا سجدۂ شکرانہ ہے یہی
پتھر سے سر پٹکتے ہیں شہر بتاں کے لوگ
زنار سے ہے کم رگ جاں جس کے سامنے
بندہ ہوئے ہیں اس بت نا مہرباں کے لوگ
اپنی خبر لے اوروں سے کیا کام اے منیرؔ
کس کا زمانہ کون سی بستی کہاں کے لوگ
غزل
کیوں کر شکار حسن نہ کھیلیں یہاں کے لوگ
منیرؔ شکوہ آبادی