کیوں زیست کا ہر ایک فسانہ بدل گیا
یہ ہم بدل گئے کہ زمانہ بدل گیا
صیاد یاں وہی وہی طائر وہی ہیں دام
لیکن جو زیر دام تھا دانہ بدل گیا
بازیٔ حسن و عشق میں کچھ ہار ہے نہ جیت
نظریں ملیں دلوں کا خزانہ بدل گیا
بخت بشر وہی ہے بساط جہاں وہی
ہر دور نو میں مات کا خانہ بدل گیا
طاقت کے دوش پر ہے ازل سے بشر کی لاش
بس تھوڑی تھوڑی دور پہ شانہ بدل گیا
محفل کے حسب ذوق ہے مطرب کا ساز بھی
محفل بدل گئی تو ترانہ بدل گیا
ان داغہائے دل میں کوئی زخم نو نہیں
شاید کسی نظر کا نشانہ بدل گیا
ملاؔ کو زور طبع ہوا فیصلوں کی نذر
دریا ابھی وہی ہے دہانہ بدل گیا
غزل
کیوں زیست کا ہر ایک فسانہ بدل گیا
آنند نرائن ملا