کیوں ہو بہانہ جو نہ قضا سر سے پاؤں تک
ظالم ہیں آپ کی ہے ادا سر سے پاؤں تک
ساکت ہیں بعد مرگ قویٰ سر سے پاؤں تک
مہریں لگا گئی ہے قضا سر سے پاؤں تک
گھیرے تھی تجھ کو برق ادا سر سے پاؤں تک
کیوں نخل طور جل نہ گیا سر سے پاؤں تک
زنجیر بن گئی ہے قضا سر سے پاؤں تک
گویا رگیں ہیں دام بلا سر سے پاؤں تک
میں خود زبان شکر بنا سر سے پاؤں تک
ڈوبے نہ کیوں اثر میں دعا سر سے پاؤں تک
منہ چاند اس پہ زلف رسا سر سے پاؤں تک
کیوں لوٹ پوٹ ہو نہ ادا سر سے پاؤں تک
صدق و صفا سکھاتا ہے نظارہ باز کو
آئینۂ جمال ترا سر سے پاؤں تک
قاصد کہے گیا مری زردی رخ کا حال
اس داستاں کو خوب رنگا سر سے پاؤں تک
اے شمع تجھ سے صاف میں کہتا ہوں دل کا حال
جلنا ہی تھا تو جل نہ گیا سر سے پاؤں تک
پیری میں کانپنے لگے اعضائے جسم سب
ہشیار ہل گئی یہ بنا سر سے پاؤں تک
شاید خزاں صبا کا فسانہ سنا گئی
ہر نخل باغ کانپ گیا سر سے پاؤں تک
دریائے عشق میں مجھے رکھنا نہ تھا قدم
ڈوبا تو خوب ڈوب گیا سر سے پاؤں تک
لی نخل طور کی نہ خبر تم نے اے کلیم
تم دیکھتے رہے وہ جلا سر سے پاؤں تک
آغاز ہی میں آپ نے کر دی زبان بند
قصہ ہمارا سن نہ لیا سر سے پاؤں تک
پھیلائیں یا نہ ہاتھ کو پھیلائیں شرم سے
دست طلب ہیں تیرے گدا سر سے پاؤں تک
تیرا کہاں جمال کہاں جلوہ گاہ طور
موسیٰ نہ پھر نہ دیکھ لیا سر سے پاؤں تک
اللہ شادؔ غیر کی یہ عیب جوئیاں
تو خود پہ کر نگاہ ذرا سر سے پاؤں تک
غزل
کیوں ہو بہانہ جو نہ قضا سر سے پاؤں تک
شاد عظیم آبادی