کیوں آسمان ہجر کے تارے چلے گئے
اب کیا ہوا جو خواب تمہارے چلے گئے
ساقی کے در پہ آج بغاوت کے شور میں
ہم جام جام جام پکارے چلے گئے
روٹھا ہوا ہے چاند بہت آفتاب سے
اور چاندنی کو ڈھونڈنے تارے چلے گئے
اس دست اختیار میں اک جان ہی تو تھی
ہم تم پہ اپنی جان کو وارے چلے گئے
بے مہر زندگی کا گزارا نہ ہو سکا
ہم بار بار عشق میں ہارے چلے گئے

غزل
کیوں آسمان ہجر کے تارے چلے گئے
فیصل فہمی