کیا یہ آفت نہیں عذاب نہیں
دل کی حالت بہت خراب نہیں
بود پل پل کی بے حسابی ہے
کہ محاسب نہیں حساب نہیں
خوب گاؤ بجاؤ اور پیو
ان دنوں شہر میں جناب نہیں
سب بھٹکتے ہیں اپنی گلیوں میں
تا بہ خود کوئی باریاب نہیں
تو ہی میرا سوال ازل سے ہے
اور ساجن ترا جواب نہیں
حفظ ہے شمس بازغہ مجھ کو
پر میسر وہ ماہتاب نہیں
تجھ کو دل درد کا نہیں احساس
سو مری پنڈلیوں کو داب نہیں
نہیں جڑتا خیال کو بھی خیال
خواب میں بھی تو کوئی خواب نہیں
سطر مو اس کی زیر ناف کی ہائے
جس کی چاقو زنوں کو تاب نہیں
غزل
کیا یہ آفت نہیں عذاب نہیں
جون ایلیا