EN हिंदी
کیا یہ آفت نہیں عذاب نہیں | شیح شیری
kya ye aafat nahin azab nahin

غزل

کیا یہ آفت نہیں عذاب نہیں

جون ایلیا

;

کیا یہ آفت نہیں عذاب نہیں
دل کی حالت بہت خراب نہیں

بود پل پل کی بے حسابی ہے
کہ محاسب نہیں حساب نہیں

خوب گاؤ بجاؤ اور پیو
ان دنوں شہر میں جناب نہیں

سب بھٹکتے ہیں اپنی گلیوں میں
تا بہ خود کوئی باریاب نہیں

تو ہی میرا سوال ازل سے ہے
اور ساجن ترا جواب نہیں

حفظ ہے شمس بازغہ مجھ کو
پر میسر وہ ماہتاب نہیں

تجھ کو دل درد کا نہیں احساس
سو مری پنڈلیوں کو داب نہیں

نہیں جڑتا خیال کو بھی خیال
خواب میں بھی تو کوئی خواب نہیں

سطر مو اس کی زیر ناف کی ہائے
جس کی چاقو زنوں کو تاب نہیں