کیا ستاتے ہو رہو بندہ نواز
کہ نہیں خوب یہ خو بندہ نواز
بے سبب بے وجہ و بے تقصیر
اس قدر غصہ نہ ہو بندہ نواز
ظلم ناحق نہ کرو کوئی دن
جیو اور جیونے دو بندہ نواز
مے کشو بیچ نہ بیٹھو ہرگز
خون میرا نہ پیو بندہ نواز
عطر کو مل کے نہ آؤ ہم پاس
ذبح کرتی ہے یہ بو بندہ نواز
کب تلک اپنی کہے جاؤ گے
بات میری بھی سنو بندہ نواز
واجب القتل تمہارا میں ہوں
اور کا نام نہ لو بندہ نواز
گو کہ سب مجھ کو برا کہتے ہیں
تم زباں سیں نہ کہو بندہ نواز
کس کا منہ ہے جو ترے سنمکھ ہو
ہو نہ ہو آئینہ ہو بندہ نواز
جا تری چشم میں میری ہے جا
سرو ہو ہے لب جو بندہ نواز
وصف کاکل میں سدا گویا ہے
جو زباں ہر سر مو بندہ نواز
دل سے حاتمؔ بخدا بندہ ہے
دور خدمت سے ہے گو بندہ نواز
غزل
کیا ستاتے ہو رہو بندہ نواز
شیخ ظہور الدین حاتم