کیا نظر آئے گا ناظر میرے
زخم غائب ہیں بظاہر میرے
پھر مجھے دوست ملے پتھر کے
آئنے ٹوٹ گئے پھر میرے
ان میں کس کو نظر انداز کروں
سامنے ہیں جو مناظر میرے
دشمنوں سے مجھے پہچان ملی
کام آئے وہی آخر میرے
عشق کی راہ میں خطرے ہیں بہت
سوچ لینا یہ مسافر میرے
درد سینہ میں جو پوشیدہ تھے
اشک وہ کر گئے ظاہر میرے
لکھنے بیٹھا ہے کہانی میری
تھک نہ جائے تو محرر میرے
غزل
کیا نظر آئے گا ناظر میرے
پون کمار