EN हिंदी
کیا کیا سوال میری نظر پوچھتی رہی | شیح شیری
kya kya sawal meri nazar puchhti rahi

غزل

کیا کیا سوال میری نظر پوچھتی رہی

راجندر ناتھ رہبر

;

کیا کیا سوال میری نظر پوچھتی رہی
لیکن وہ آنکھ تھی کہ برابر جھکی رہی

میلے میں یہ نگاہ تجھے ڈھونڈتی رہی
ہر مہ جبیں سے تیرا پتہ پوچھتی رہی

جاتے ہیں نامراد ترے آستاں سے ہم
اے دوست پھر ملیں گے اگر زندگی رہی

آنکھوں میں تیرے حسن کے جلوے بسے رہے
دل میں ترے خیال کی بستی بسی رہی

اک حشر تھا کہ دل میں مسلسل بپا رہا
اک آگ تھی کہ دل میں برابر لگی رہی

میں تھا کسی کی یاد تھی جام شراب تھا
یہ وہ نشست تھی جو سحر تک جمی رہی

شام وداع دوست کا عالم نہ پوچھئے
دل رو رہا تھا لب پہ ہنسی کھیلتی رہی

کھل کر ملا نہ جام ہی اس نے کوئی لیا
رہبرؔ مرے خلوص میں شاید کمی رہی