کیا کیا نہ تیرے صدمے سے باد خزاں گرا
گل برگ سرو فاختہ کا آشیاں گرا
لکھنے لگی قضا جو ہماری فتادگی
سو بار ہاتھ سے قلم دو زباں گرا
جب پہنچے ہم کنارۂ مقصود کے قریب
تب ناخدا جہاں سے اٹھا بادباں گرا
موباف سرخ چوٹی سے کیا ان کی کھل پڑا
ایک صاعقہ سا دل پہ مرے ناگہاں گرا
تا آسماں پہنچ کے ہوئی آہ سرنگوں
یا رب ہو خیر فوج الم کا نشاں گرا
اٹھ کر چلا جو پاس سے ان کے تو گھر تلک
ہر ہر قدم پہ ضعف سے میں ناتواں گرا
دیکھا جو دشت نجد میں حال تباہ قیس
محمل سے لیلیٰ کود پڑی سارباں گرا
دوزخ پہ کیوں نہ ہو دل بیمارؔ طعنہ زن
آتش سے عشق کی ہے پتنگا یہاں گرا
غزل
کیا کیا نہ تیرے صدمہ سے باد خزاں گرا
شیخ علی بخش بیمار