کیا خبر تھی انقلاب آسماں ہو جائے گا
قورمہ قلیہ نصیب احمقاں ہو جائے گا
ظلمت باطل کے دامن میں چھپے گا نور حق
دال کی آغوش میں قیمہ نہاں ہو جائے گا
کیک بسکٹ کھائیں گے الو کے پٹھے رات دن
اور شریفوں کے لیے آٹا گراں ہو جائے گا
کنٹرول اس کے لب شیریں پہ گر یوں ہی رہا
کھانڈ کا شربت نصیب دشمناں ہو جائے گا
اے بھنے تیتر نہ ڈر باورچیوں کی قید سے
پیٹ میرا تیری خاطر آشیاں ہو جائے گا
اے سکندر مرغ کا ہے شوربا آب حیات
خضر بھی اس کو اگر پی لے جواں ہو جائے گا
جب یہ کہتا ہوں کہ کچھ سامان دعوت کیجئے
وہ یہ کہہ کر ٹال دیتے ہیں کہ ہاں ہو جائے گا
غزل
کیا خبر تھی انقلاب آسماں ہو جائے گا
حسین میر کاشمیری