کیا کرے گا جا کے بیت اللہ تو
دل ہی سے کر اپنی پیدا راہ تو
ڈوب جا بحر عمیق عشق میں
یوں نہ ہرگز لے سکے گا تھاہ تو
گھر سے نکلے گا وہ اپنی رات کو
مت نکلیے دیکھیو اے ماہ تو
کعبہ ڈھ جاوے تو بن سکتا ہے پھر
دیکھیے دل ہے اسے مت ڈھاہ تو
حال دل تھوڑا سا سن کر بول اٹھا
بس اب اس قصہ کو کر کوتاہ تو
یار کے دل تک اثر کے ساتھ جا
آسماں تک جا نہ جا اے ماہ تو
واجب التعذیر ہے راسخؔ پہ حیف
قدر سے اس کی نہیں آگاہ تو
غزل
کیا کرے گا جا کے بیت اللہ تو
راسخ عظیم آبادی