کیا کہوں غنچۂ گل نیم دہاں ہے کچھ اور
لا کلامی ہے وہاں بات یہاں ہے کچھ اور
بجھ گئی آتش گل دیکھ تو اے دیدۂ تر
کیا سلگتا ہے جو پہلو میں دھواں ہے کچھ اور
پانی اس میں سے بھریں اس میں گریں یوسف دل
چشمۂ چاہ ذقن اور کنواں ہے کچھ اور
جیتے جی موت کا ڈر بعد فنا خوف عذاب
جز غم و رنج یہاں ہے نہ وہاں ہے کچھ اور
حسن صورت پہ نہ جا دیکھ وہیں معنی کو
ایک ہیں کعبہ و بت خانہ کہاں ہے کچھ اور
تم سمجھتے ہو مری بے ذہنی میں ہے کلام
لب گویا کی قسم ذکر یہاں ہے کچھ اور
بادہ کش وہ ہوں کروں شیشے کے شیشے خالی
پر لگاؤں یہی رٹ نشہ میں ہاں ہے کچھ اور
قسمت شادؔ میں جز غم جو یہاں کچھ بھی نہیں
اے ہوس لے چل ادھر کو کہ جہاں ہے کچھ اور
غزل
کیا کہوں غنچۂ گل نیم دہاں ہے کچھ اور
شاد لکھنوی