کیا ہی تپتا ہے سلگتا ہے دھواں دیتا ہے
ہجر کی شام تو دل باندھ سماں دیتا ہے
کون کمبخت نہ چاہے گا نکلنا لیکن
اتنی مہلت ہی ترا دام کہاں دیتا ہے
قول تو ایک بھی پورا نہ ہوا اب دیکھوں
کیا دلیل اس کی مرا شعلہ بیاں دیتا ہے
طبع نازک پہ گزرتا ہے گراں تو گزرے
زیب وحشی کو یہی طرز فغاں دیتا ہے
خاص بندوں کو پکارے گا ادھر تو رضواں
دعوت عام ادھر شہر بتاں دیتا ہے
ایک مدت سے بدن برف ہے لیکن اب تک
کروٹیں دل کو کوئی سوز نہاں دیتا ہے
نازنیں پڑھتے ہیں راحیلؔ کی غزلیں کیا خوب
داد ہر شعر کی ہر پیر و جواں دیتا ہے

غزل
کیا ہی تپتا ہے سلگتا ہے دھواں دیتا ہے
راحیل فاروق