EN हिंदी
کیا غضب ہے کہ ملاقات کا امکاں بھی نہیں | شیح شیری
kya ghazab hai ki mulaqat ka imkan bhi nahin

غزل

کیا غضب ہے کہ ملاقات کا امکاں بھی نہیں

رام کرشن مضطر

;

کیا غضب ہے کہ ملاقات کا امکاں بھی نہیں
اور اب اس کو بھلانا کوئی آساں بھی نہیں

کسے دیکھوں کسے آنکھوں سے لگاؤں اے دل
روئے تاباں بھی نہیں زلف پریشاں بھی نہیں

اور ہیں آج ٹھکانے ترے دیوانوں کے
کوہ و صحرا بھی نہیں دشت و بیاباں بھی نہیں

جانے کیا بات ہے سب اہل جنوں ہیں خاموش
آج وہ سلسلۂ چاک گریباں بھی نہیں

غم پنہاں نظر آتا ہے مجھے دشمن جاں
ہائے یہ درد کہ جس کا کوئی درماں بھی نہیں

کون جانے مرا انجام سحر تک کیا ہو
آج کوئی دل بیمار کا پرساں بھی نہیں

ہائے یہ گھر کہ اب اس میں نہیں بستا کوئی
حیف یہ دل کہ اب اس میں کوئی ارماں بھی نہیں

اف یہ تنہائی یہ وحشت یہ سکوت شب تار
اور شبستاں میں کوئی شمع فروزاں بھی نہیں

ساتھ اس گل کے گیا دل سے گلستاں کا خیال
اب مجھے آرزوئے فصل بہاراں بھی نہیں