کیا بھروسہ ہے انہیں چھوڑ کے لاچار نہ جا
بن ترے مر ہی نہ جائیں ترے بیمار نہ جا
مجھ کو روکا تھا سبھی نے کہ ترے کوچے میں
جو بھی جاتا ہے وہ ہوتا ہے گرفتار نہ جا
ناخدا سے بھی مراسم نہیں اچھے تیرے
اور ٹوٹے ہوئے کشتی کے بھی پتوار نہ جا
جلتے صحرا کا سفر ہے یہ محبت جس میں
کوئی بادل نہ کہیں سایۂ اشجار نہ جا
بن ہمارے نہ ترے ناز اٹھائے گا کوئی
سوچ لے چھوڑ کے ہم ایسے پرستار نہ جا

غزل
کیا بھروسہ ہے انہیں چھوڑ کے لاچار نہ جا
سید صغیر صفی