کیا بھلا مجھ کو پرکھنے کا نتیجہ نکلا
زخم دل آپ کی نظروں سے بھی گہرا نکلا
تشنگی جم گئی پتھر کی طرح ہونٹوں پر
ڈوب کر بھی ترے دریا سے میں پیاسا نکلا
جب کبھی تجھ کو پکارا مری تنہائی نے
بو اڑی پھول سے تصویر سے سایا نکلا
کوئی ملتا ہے تو اب اپنا پتہ پوچھتا ہوں
میں تری کھوج میں تجھ سے بھی پرے جا نکلا
مجھ سے چھپتا ہی رہا تو مجھے آنکھیں دے کر
میں ہی پردہ تھا اٹھا میں تو تماشا نکلا
توڑ کر دیکھ لیا آئینۂ دل تو نے
تیری صورت کے سوا اور بتا کیا نکلا
نظر آیا تھا سر بام مظفرؔ کوئی
پہنچا دیوار کے نزدیک تو سایا نکلا
غزل
کیا بھلا مجھ کو پرکھنے کا نتیجہ نکلا
مظفر وارثی