کیا آج ان سے اپنی ملاقات ہو گئی
صحرا پہ جیسے ٹوٹ کے برسات ہو گئی
ویران بستیوں میں مرا دن ہوا تمام
سنسان جنگلوں میں مجھے رات ہو گئی
کرتی ہے یوں بھی بات محبت کبھی کبھی
نظریں ملیں نہ ہونٹ ہلے بات ہو گئی
ظالم زمانہ ہم کو اگر دے گیا شکست
بازی محبتوں کی اگر مات ہو گئی
ہم کو نگل سکیں یہ اندھیروں میں دم کہاں
جب چاندنی سے اپنی ملاقات ہو گئی
بازار جانا آج سپھل ہو گیا مرا
برسوں کے بعد ان سے ملاقات ہو گئی

غزل
کیا آج ان سے اپنی ملاقات ہو گئی
راجندر ناتھ رہبر