EN हिंदी
کچھ نہ ایدھر ہے نے ادھر تو ہے | شیح شیری
kuchh na idhar hai ne udhar tu hai

غزل

کچھ نہ ایدھر ہے نے ادھر تو ہے

میر محمدی بیدار

;

کچھ نہ ایدھر ہے نے ادھر تو ہے
جس طرف کیجئے نظر تو ہے

اختلاف صور ہیں ظاہر میں
ورنہ معنیٔ یک دگر تو ہے

ہے جو کچھ تو سو تو ہی جانے ہے
کوئی کیا جانے کس قدر تو ہے

کیا مہ و مہر کیا گل و لالہ
جب میں دیکھا تو جلوہ گر تو ہے

کس سے تشبیہ دیجئے تجھ کو
سارے خوباں سے خوب تر تو ہے

وہ تو بیدارؔ ہے عیاں لیکن
اس کے جلوہ سے بے خبر تو ہے