کچھ نہ ایدھر ہے نے ادھر تو ہے
جس طرف کیجئے نظر تو ہے
اختلاف صور ہیں ظاہر میں
ورنہ معنیٔ یک دگر تو ہے
ہے جو کچھ تو سو تو ہی جانے ہے
کوئی کیا جانے کس قدر تو ہے
کیا مہ و مہر کیا گل و لالہ
جب میں دیکھا تو جلوہ گر تو ہے
کس سے تشبیہ دیجئے تجھ کو
سارے خوباں سے خوب تر تو ہے
وہ تو بیدارؔ ہے عیاں لیکن
اس کے جلوہ سے بے خبر تو ہے
غزل
کچھ نہ ایدھر ہے نے ادھر تو ہے
میر محمدی بیدار