کچھ حسیں یادیں بھی ہیں دیدۂ نم کے ساتھ ساتھ
زندگی میں حسن بھی گویا ہے غم کے ساتھ ساتھ
دل ترے ہم راہ جاتا ہے کہ پایا جاتا ہے
نقش دل میرا ترے نقش قدم کے ساتھ ساتھ
اس کے سائے کی طرح دیکھا نہیں اس سے جدا
ہم نے تو یزداں کو پایا ہے صنم کے ساتھ ساتھ
تاکہ ہوں دونوں کی لذت سے برابر مستفید
وہ کرم فرماتے رہتے ہیں ستم کے ساتھ ساتھ
سوزؔ ان کی چاہ میں ہم نے سدا محسوس کی
ایک انجانی سوز غم کے ساتھ ساتھ
غزل
کچھ حسیں یادیں بھی ہیں دیدۂ نم کے ساتھ ساتھ
عبد الملک سوز