EN हिंदी
کچھ ہے خبر فرشتوں کے جلتے ہیں پر کہاں | شیح شیری
kuchh hai KHabar farishton ke jalte hain par kahan

غزل

کچھ ہے خبر فرشتوں کے جلتے ہیں پر کہاں

ابرار شاہجہانپوری

;

کچھ ہے خبر فرشتوں کے جلتے ہیں پر کہاں
جاتی ہے بے ادب نگہ پردہ در کہاں

یہ شمع و انجمن یہ مے و جام یہ بہار
مہمان رات بھر کے ہیں وقت سحر کہاں

نظارۂ جمال ہے گو جان زندگی
وارفتۂ جمال کو فرصت مگر کہاں

دل عرش گاہ حسن ہے دل جلوہ گاہ ناز
یہ آپ ہی کا گھر ہے ہماری گزر کہاں

ہے وقت نزع اور غم عشق دور دور
جاتا ہے ساتھ چھوڑ کے یہ ہم سفر کہاں

اس بے خودیٔ شوق میں ابرارؔ کس کو ہوش
منزل کہاں ہے میں ہوں کہاں راہبر کہاں