کچھ بھی کہو سب اپنی اناؤں پہ اڑے ہیں
سب لوگ یہاں صورت اصنام کھڑے ہیں
جو پار اترتا گیا ہوتا گیا کم تر
ہم دورئ منزل کے طفیل آج بڑے ہیں
ہم کو نہ کہو قانع حالات کہ ہم لوگ
زندانیٔ دہلیز کے منصب پہ کھڑے ہیں
اے وصل نصیبو! ہمیں مڑ کر بھی نہ دیکھا
ہم قفل کے مانند مصائب پہ پڑے ہیں
تاریخ زمیں بخت کشا ہونے لگی تو
کھلتا گیا ہم وقت سے بیکار لڑے ہیں
عجلت کے الاؤ میں کیے فیصلے عابدؔ
اب سوچ کی برفانی کھڑاؤں پہ کھڑے ہیں
غزل
کچھ بھی کہو سب اپنی اناؤں پہ اڑے ہیں
اصغر عابد