EN हिंदी
کچھ بھی کہو سب اپنی اناؤں پہ اڑے ہیں | شیح شیری
kuchh bhi kaho sab apni anaon pe aDe hain

غزل

کچھ بھی کہو سب اپنی اناؤں پہ اڑے ہیں

اصغر عابد

;

کچھ بھی کہو سب اپنی اناؤں پہ اڑے ہیں
سب لوگ یہاں صورت اصنام کھڑے ہیں

جو پار اترتا گیا ہوتا گیا کم تر
ہم دورئ منزل کے طفیل آج بڑے ہیں

ہم کو نہ کہو قانع حالات کہ ہم لوگ
زندانیٔ دہلیز کے منصب پہ کھڑے ہیں

اے وصل نصیبو! ہمیں مڑ کر بھی نہ دیکھا
ہم قفل کے مانند مصائب پہ پڑے ہیں

تاریخ زمیں بخت کشا ہونے لگی تو
کھلتا گیا ہم وقت سے بیکار لڑے ہیں

عجلت کے الاؤ میں کیے فیصلے عابدؔ
اب سوچ کی برفانی کھڑاؤں پہ کھڑے ہیں