کچھ اور اکیلے ہوئے ہم گھر سے نکل کر
یہ لہر کہاں جائے سمندر سے نکل کر
معلوم تھا ملنا ترا ممکن نہیں لیکن
چاہا تھا تجھے میں نے مقدر سے نکل کر
عالم میں کئی اور بھی عالم تھے سو میں نے
دیکھا نہیں اس مرکز و محور سے نکل کر
اب دیکھیے کس شخص کا ہم دوش بنے وہ
جھونکے کی طرح میرے برابر سے نکل کر
خواہش ہے کہ خود کو بھی کبھی دور سے دیکھوں
منظر کا نظارہ کروں منظر سے نکل کر
تکتا رہا میں اس کی مبارز طلبی کو
وہ مجھ سے لڑا تھا مرے لشکر سے نکل کر
غزل
کچھ اور اکیلے ہوئے ہم گھر سے نکل کر
سعود عثمانی