EN हिंदी
کچھ عجب آن سے لوگوں میں رہا کرتے تھے | شیح شیری
kuchh ajab aan se logon mein raha karte the

غزل

کچھ عجب آن سے لوگوں میں رہا کرتے تھے

شاذ تمکنت

;

کچھ عجب آن سے لوگوں میں رہا کرتے تھے
ہم خفا ہو کے بھی آپس میں ملا کرتے تھے

اتنی تہذیب رہ و رسم تو باقی تھی کہ وہ
لاکھ رنجش سہی وعدہ تو وفا کرتے تھے

اس نے پوچھا تھا کئی بار مگر کیا کہتے
ہم مزاجاً ہی پریشان رہا کرتے تھے

ختم تھا ہم پہ محبت کا تماشا گویا
روح اور جسم کو ہر روز جدا کرتے تھے

ایک چپ چاپ لگن سی تھی ترے بارے میں
لوگ آ آ کے سناتے تھے سنا کرتے تھے

تیری صورت سے خدا سے بھی شناسائی تھی
کیسے کیسے ترے ملنے کی دعا کرتے تھے

اس کو ہمراہ لیے آتے تھے میری خاطر
میرے غم خوار مرے حق میں برا کرتے تھے

زندگی ہم سے ترے ناز اٹھائے نہ گئے
سانس لینے کی فقط رسم ادا کرتے تھے

ہم برس پڑتے تھے شاذؔ اپنی ہی تنہائی پر
ابر کی طرح کسی در سے اٹھا کرتے تھے