کورے کاغذ کی طرح بے نور بابوں میں رہا
تیرگی کا حاشیہ بن کر کتابوں میں رہا
میں اذیت ناک لمحوں کے عتابوں میں رہا
درد کا قیدی بنا خانہ خرابوں میں رہا
جس قدر دی جسم کو مقروض سانسوں کی زکوٰۃ
کیا بتاؤں جسم اتنا ہی عذابوں میں رہا
بے صفت صحرا ہوں کیوں صحرا نوردوں نے کہا
ہر قدم پر جب کہ میں اندھے سرابوں میں رہا
وقت کی محرومیوں نے چھین لی میری زبان
ورنہ اک مدت تلک میں لا جوابوں میں رہا
ڈھونڈتے ہو کیوں جلی تحریر کے اسباق میں
میں تو کہرے کی طرح دھندلے نصابوں میں رہا

غزل
کورے کاغذ کی طرح بے نور بابوں میں رہا
یوسف جمال