کوئی یہ لاکھ کہے میرے بنانے سے ملا
ہر نیا رنگ زمانہ کو پرانے سے ملا
فکر ہر بار خموشی سے ملی ہے مجھ کو
اور زمانہ یہ مجھے شور مچانے سے ملا
اس کی تقدیر اندھیروں نے لکھی تھی شاید
وہ اجالا جو چراغوں کو بجھانے سے ملا
پوچھتے کیا ہو ملا کیسے یہ جنگل کو طلسم
چھاؤں میں دھوپ کی رنگت کو ملانے سے ملا
اور لوگوں سے ملاقات کہاں ممکن تھی
وہ تو خود سے بھی ملا ہے تو بہانے سے ملا
میری تشکیل تو کچھ اور ہوئی تھی دانشؔ
یہ نیا نقش مجھے خود کو مٹانے سے ملا
غزل
کوئی یہ لاکھ کہے میرے بنانے سے ملا
مدن موہن دانش