کوئی اس ظالم کو سمجھاتا نہیں
وہ ستم کرنے سے باز آتا نہیں
دشت غم میں کب مرا نقش قدم
ہر قدم پہ آنکھ دکھلاتا نہیں
درد فرقت سے زباں دانتوں میں ہے
کیا کہوں کچھ بھی کہا جاتا نہیں
چشم دل سے دیکھ اسے تو دیکھ لے
چشم ظاہر سے نظر آتا نہیں
صبر شوق وصل جاناں کیا کروں
پر لگا کر بھی اڑا جاتا نہیں
کب خیال زلف میں ہر رات کو
دل پہ میرے سانپ لہراتا نہیں
گل سے نسبت کیا ترے رخسار کو
یہ تو وہ گل ہے جو کمہلاتا نہیں
درد فرقت سے ہے اب ہونٹوں پہ دم
پھر بھی ظالم کو ترس آتا نہیں
جان لی ہے جلوۂ رخسار نے
قبر کی ظلمت سے گھبراتا نہیں
حسن کی خودداریاں تو دیکھیے
بے خودی میں بھی وہ ہاتھ آتا نہیں
وہ نہیں آتے تو نادر کیا گلا
ہوش جب دو دو دوپہر آتا نہیں

غزل
کوئی اس ظالم کو سمجھاتا نہیں
نادر شاہجہاں پوری