EN हिंदी
کوئی شے ڈوبے تو دریا میں لہر جاگے ہے | شیح شیری
koi shai Dube to dariya mein lahar jage hai

غزل

کوئی شے ڈوبے تو دریا میں لہر جاگے ہے

شمیم انور

;

کوئی شے ڈوبے تو دریا میں لہر جاگے ہے
کب اذاں مرغ کے دینے سے سحر جاگے ہے

کنکری مارے سے پانی میں اثر جاگے ہے
اک ذرا خواہش پرواز سے پر جاگے ہے

ان کو منبر کی بلندی سے تشفی نہ ہوئی
جن کی آواز پہ تحریک کا سر جاگے ہے

نیند کی کائی سے بوجھل ہے ہر اک آنکھ مگر
سنگ کے خوف سے شیشے کا نگر جاگے ہے

لذت درد سمندر سے نہیں سیپ سے پوچھ
جس کی آغوش میں قطرے سے گہر جاگے ہے

رنگ و روغن کے بدلنے سے بھلا کیا حاصل
ننھی کلکاریاں جاگے ہے تو گھر جاگے ہے

پھر کھنگھلنے کو ہے کیا خطۂ نا دیدہ کوئی
پھر کف پا میں سر شوق سفر جاگے ہے

گھر کے پچھواڑے مہکتی ہوئی سرگوشی سے
کتنے بیتے ہوئے لمحوں کا کھنڈر جاگے ہے