کوئی سوغات وفا دے کے چلا جاؤں گا
تجھ کو جینے کی ادا دے کے چلا جاؤں گا
میرے دامن میں اگر کچھ نہ رہے گا باقی
اگلی نسلوں کو دعا دے کے چلا جاؤں گا
تیری راہوں میں مرے بعد نہ جانے کیا ہو
میں تو نقش کف پا دے کے چلا جاؤں گا
میری آواز کو ترسے گا ترا رنگ محل
میں تو اک بار صدا دے کے چلا جاؤں گا
میرا ماحول رلاتا ہے مجھے آج مگر
تم کو ہنسنے کی فضا دے کے چلا جاؤں گا
باعث امن و محبت ہے اگر میرا لہو
قطرہ قطرہ بخدا دے کے چلا جاؤں گا
عمر بھر بخل کا احساس رلائے گا تمہیں
میں تو سائل ہوں دعا دے کے چلا جاؤں گا
میرے اجداد نے سونپی تھی جو مجھ کو رزمیؔ
نسل نو کو وہ قبا دے کے چلا جاؤں گا
غزل
کوئی سوغات وفا دے کے چلا جاؤں گا
مظفر رزمی