کوئی پوچھے تو نہ کہنا کہ ابھی زندہ ہوں
وقت کی کوکھ میں اک لمحۂ آئندہ ہوں
زندگی کتنی حسیں کتنی بڑی نعمت ہے
آہ میں ہوں کہ اسے پا کے بھی شرمندہ ہوں
کیا ادا ہونے کو ہے سنت ابراہیمی
آگ ہی آگ ہے ہر سمت مگر زندہ ہوں
زندگی تو جو سنے گی تو ہنسی آئے گی
میں سمجھتا ہوں کہ میں تیرا نمائندہ ہوں
تیز رفتار ہواؤں کے لبوں سے پوچھو
حرف آخر ہوں میں اک نغمۂ پائندہ ہوں
اجنبی جان کے ہر شخص گزر جاتا ہے
اور صدیوں سے اسی شہر کا باشندہ ہوں
جانے کن تیز اجالوں میں نہایا تھا کبھی
اس قدر سخت اندھیروں میں بھی تابندہ ہوں
غزل
کوئی پوچھے تو نہ کہنا کہ ابھی زندہ ہوں
منظور ہاشمی