کوئی مہرباں نہیں ساتھ میں کوئی ہات بھی نہیں ہات میں
ہیں اداسیاں مری منتظر سبھی راستوں میں جہات میں
ہے خبر مجھے کہ یہ تم نہیں کسی اجنبی کو بھی کیا پڑی
سبھی آشنا بھی ہیں روبرو تو یہ کون ہے مری گھات میں
یہ اداسیوں کا جو رنگ ہے کوئی ہو نہ ہو مرے سنگ ہے
مرے شعر میں مری بات میں مری عادتوں میں صفات میں
کریں اعتبار کسی پہ کیا کہ یہ شہر شہر نفاق ہے
جہاں مسکراتے ہیں لب کہیں وہیں طنز ہے کسی بات میں
چلو یہ بھی مانا اے ہم نوا کہ تغیرات کے ماسوا
نہیں مستقل کوئی شے یہاں تو یہ ہجر کیوں ہے ثبات میں
مری دسترس میں بھی کچھ نہیں، نہیں تیرے بس میں بھی کچھ نہیں
میں اسیر کاکل عشق ہوں مجھے کیا ملے گا نجات میں
غزل
کوئی مہرباں نہیں ساتھ میں کوئی ہات بھی نہیں ہات میں
محمد احمد