کوئی لہجہ کوئی جملہ کوئی چہرا نکل آیا
پرانے طاق کے سامان سے کیا کیا نکل آیا
بظاہر اجنبی بستی سے جب کچھ دیر باتیں کیں
یہاں کی ایک اک شے سے مرا رشتہ نکل آیا
مرے آنسو ہوئے تھے جذب جس مٹی میں اب اس پر
کہیں پودا کہیں سبزہ کہیں چشمہ نکل آیا
خدا نے ایک ہی مٹی سے گوندھا سب کو اک جیسا
مگر ہم میں کوئی ادنیٰ کوئی اعلیٰ نکل آیا
سبھی سے فاصلہ رکھنے کی عادت تھی سو اب بھی ہے
پرایا کون تھا جو شہر میں اپنا نکل آیا
نئے ماحول نے پہچان ہی مشکوک کر ڈالی
جو بے چہرہ تھے کل تک ان کے بھی چہرا نکل آیا
غزل
کوئی لہجہ کوئی جملہ کوئی چہرا نکل آیا
شاہد لطیف