کوئی کس طرح تم سے سر بر ہو
سخت بے رحم ہو ستم گر ہو
اٹھ گیا ہم سے گو مکدر ہو
خوش رہے وہ جہاں ہو جیدھر ہو
تیوری چڑھ رہی ہے یہ بھوں پر
کیا ہے کیوں کس لیے مکدر ہو
کیا شتابی ہی ایسے جائے گا
خشک تو ہو عرق ابھی تر ہو
جان کھائی ہے ناصحو نے مری
سامنے ان کے تو ٹک آ کر ہو
لیجے حاضر ہے چیز کیا ہے دل
غصہ اس واسطے جو مجھ پر ہو
یاد میں اس کی گھر سے نکلا ہوں
سخت بے اختیار و مضطر ہو
اس سے بیدارؔ بات تو معلوم
دیکھنا بھی کہیں میسر ہو
غزل
کوئی کس طرح تم سے سر بر ہو
میر محمدی بیدار