کوئی کھڑکی جو کھلی رہتی ہے
سامنے شکل وہی رہتی ہے
میرے ہونٹوں پہ ہنسی رہتی ہے
آگ پھولوں میں دبی رہتی ہے
جیسے ہر چیز پگھل جائے گی
دھوپ یوں سر پہ کھڑی رہتی ہے
اب تو خوابوں کے بھی آئینے میں
وقت کی دھول جمی رہتی ہے
میری تنہائی کے دروازے پر
جانے کیوں بھیڑ لگی رہتی ہے
کتنی قاتل ہے یہ دنیا لیکن
کتنی معصوم بنی رہتی ہے
تیز رو وقت سے آگے ثاقبؔ
میری شوریدہ سری رہتی ہے

غزل
کوئی کھڑکی جو کھلی رہتی ہے
میر نقی علی خاں ثاقب